استعاذہ میں چار بحثیں ہیں:

1. محلِ استعاذہ 2. کیفیتِ استعاذہ 3. الفاظِ استعاذہ 4. حکمِ استعاذہ

1.  محلِ استعاذہ:محلِ استعاذہ ا بتدائےقرآت ہے ۔عام ہےکہ یہ ابتداء سورۃسےہویادرمیان سورۃسے ،نماز میں ہو یا خارج نماز میں۔ہر ابتدائے قرآت محل استعاذہ ہے۔

2.  کیفیتِ استعاذہ:اس میں دوگروہ ہیں کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ استعاذہ آہستہ پڑھا جائے کیونکہ یہ دعا ہے اور دعاکےبارےمیں حکم باری تعالی ہے: (اُدْعُوْ رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْیَۃً)(اپنے پروردگار کو عاجزی اور آہستگی سے پکارو)دوسرے حضرات کا کہنا ہےکہ استعاذہ بلند آواز سے ہوناچاہیے۔اس لیے کہ یہ اعلان ہےجوابتدائےقرآت میں ضروری ہےتاکہ لوگ،

 وَاِذَاقُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْلَہُ وَاَنْصِتُوْ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ

(جب قرآن پڑھا جایاکرے اس کی طرف کا ن لگا لیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو ۔ سورۃ اعراف) 

،والی آیت کے حکم کے پابند رہ سکیں۔تعوذسے انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اب قرآن مجید شروع ہو نے والاہے تو تمام لوگ خاموش ہو جائیں گے۔اس لیے جہر اًپڑھنا ضروری ہے۔رہا آیت سے استدلال تو صاحب آیت والا حکم عام نہیں ہے ۔یعنی ہر دعا کو شامل نہیں(جیسےدعائےاستسقاء میں ہاتھوں کو الٹا کر کے جہراً دعا کی جاتی ہے) لہٰذ ا اس کو بھی بلند پڑھنےمیں کوئی حرج نہیں ہے ۔

3.   الفاظ ِاستعاذہ:حضرت عبداللہ بن مسعود(رضی اللہ عنہ )سے مروی ہے کہ میں نےایک مرتبہ نبی کریمؐ کی موجودگی میں یوں پڑھا۔اَعُوْذُ بِاللّٰہِ الصَّمَدِ السَّمِیْعِ العَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ استعاذہ نہ پڑھوبلکہ یہ پڑھو۔اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم۔اس لیےکہ یہ استعاذہ بہترہے ۔بہر حال اب اسی استعاذہ کاپڑھنا بہتر ہے بلکہ اولی ہے (چار وجوہ سے )ایک تو نبی کریم ﷺکا حکم تھا۔ دوسرا مختصر ہے ۔تیسرانص سےمطابقت ہے ۔چوتھا یہ کہ آسان بھی ہے۔

4.   حکمِ استعاذہ: استعاذہ قراء کے نزدیک واجب ہے اور استعاذہ فقہاء کے نزدیک مستحب ہے ۔